ذرا یاد کر میرے ہم نفس
میرا دل جو تم پہ نِثار تھا
وہ ڈرا ڈرا سا جو پیار تھا
تیرے شوخ قدموں کی دُھول تھی
تیرا دل بھی بے قرار تھا
ذرا یاد کر
تیرے جیسا میرا بھی حال تھا
نا سکون تھا نا قرار تھا
یہی عُمر تھی میرے ہم نَشّیں
کہ کسی سے مجھ کو بھی پیار تھا
ذرا یاد کر
میں سمجھ رہا ہوں تیری کسک
درد تیرا میرا ہے مشترک
اسی غم کا تو بھی اسیر تھا
اسی دُکھ کا میں بھی شِکار تھا
ذرا یاد کر
فَقّط ایک دُھند تھی کہ رات دن
اسی خوابِ زَد میں گم رہے
وہ سرور ایسا سرور تھا
وہ خُمار ایسا خمار تھا
ذرا یاد کر
کبھی لمحہ بھر کی بھی گفتگو
میری اُس کے ساتھ نا ہو سکی
مجھے فُرصتیں نہیں مل سکِیں
وہ ہوا کے رُت پہ سوار تھا
ذرا یاد کر
ہم عجیب طرض کے لوگ تھے
کہ ہمارے اور بھی روگ تھے
میں خِزاں میں اُسکا تھا مُنتظِر
اُسے اِنتظارِ بہار تھا
ذرا یاد کر
اسے پڑھ کر تم نا سَمجھ سکے
کہ میری کتاب کے رُوپ میں
کوئی قرض تھا کئی سال کا
کئی رَت جگوں کا اُدھار تھا
ذرا یاد کر
وہ گُھٹی گُھٹی سی نواِ دِل
میری آہِ دَرد کا ساز تھی
جو پڑھی تھی آنکھوں نے ٹوٹ کر
کسی بے خدا کی نماز تھی
میری بے بسی کا فشار تھا
تیرا دل بھی بے قرار تھا
زرا یاد کر
میرا غم تو ہے غمِ مبتلا
میں جیا مگر میں جیا نہیں
تیرا غم ہے تیری ندامتیں
تجھے عمر بھر کی سزا ملی
تیرا جُرم جُرمِ فَرار تھا
تیرا دل بھی بےقرار تھا
ذرا یاد کر، ذرا یاد کر
میرے ہم نفس،
میرا دل جو تم پہ نثار تھا۔
Comments
Post a Comment